کرپشن کے خلاف جہاد مومن کی ذمہ داری

کرپشن، ناجائز مال ہڑپ کرنا رشوت لینا حرام ہے (القرآن2:188 ) <English Translation> کرپشن  اورکرپٹ افراد اور برائی کی حمایت کرنے والا اس...

کرپشن کے خاتمہ میں اسلام کا کردار


عہد حاضر میں انسانیت کے لئے جو مسائل زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں ان میں سب سے اہم بدعنوانی اور کرپشن کا مسئلہ ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے آج پورا انسانی معاشرہ پریشان ہے۔ وہ اس دلدل سے نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے لیکن اس سے باہر نکلنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرنے والی اس مہلک بیماری کا کوئی علاج دنیا کے پاس نہیں ہے۔ آج شاید ہی کوئی انسان ہو جسے دانستہ یا نادانستہ رضایا مجبوری سے بدعنوانی اور کرپشن میں ملوث نہ ہونا پڑتا ہو۔ خاص کر ہمارے ملک ہندوستان میں بدعنوانی کی شرح ۶۹فیصد ہے جو ہمارے ملک کو دنیا کے بڑے بدعنوان ملکوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔
ملک کی بد ترین صورتحال
اس وقت ملک کی صورت حا ل کس قدر خراب ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ آج ملک کی۶۹ فیصد عوام اپنے جائز کاموں کے لئے بھی رشوت دینے پر مجبور ہیں۔ حکومت کا کام عوام کی فلاح و بہبودہے، لیکن ہمارے سرکاری محکموں کا حال یہ ہے کہ وہاں اپنا کام کرانے کے لئے ۵۲ فیصد لوگوں کو مجبوراََرشوت دینا پڑتی ہے۔ محکمہ قانون کی صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے یہاں کرپشن کی شرح۶۲فیصد ہے۔ اسی طرح ملک کے ۶۰ فیصد لوگ ٹریفک پولیس کو رشوت ادا کرتے ہیں، یہ رقم سال میں ۱۵۰۰ کڑوڑ روپے تک پہونچ جاتی ہے۔ محکمۂ تعلیم اور محکمۂ صحت میں ہونے والی بد عنوانیوں کا یہ حال ہے کہ یہاں ہر ہر قدم پرعوام کا استحصال کیا جاتا ہے اور بے چاری عوام کو کو چارو نا چار اس میں ملوث ہونا پڑ تا ہے۔ ان دونوں محکموں میں ہونے والی بدعنوانی کی رقم سال میں سوا تین لاکھ کڑوڑ تک پہنچ جاتی ہے، جو ہمارے دفاعی اور رفاہی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔
اگر ملک کی سیاست کی بات کریں تو یہاں ۷۸ فیصد سیاسی قائدین بد عنوان ہیں جبکہ ۳۱ فیصدممبر پارلیمنٹ ایسے ہیں جن پر کوئی نہ کوئی فرد جرم عائد ہے۔ بدعنوانی کا گھن ملک کو کس طرح چاٹ رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی دولت کا بڑا حصہ کالے دھن کی شکل میں سوئیز بینکوں میں جمع ہے۔ جس کی مالیت ۲۵ لاکھ کڑوڑ روپیے بتائی جاتی ہے۔ یہ رقم اتنی زیادہ ہے کے وزیر اعظم نے اپنے انتخابی ایجنڈے میں اس رقم کی واپسی کو ہی اہم مدعا بنایا تھا اور کہا تھا کہ اگر یہ رقم واپس آجائے تو ہر ہندوستانی کے حصہ میں ۱۵ لاکھ روپے آئیں گے۔ ہمارے ملک میں جو رقم بدعنوانی کے نذر ہوتی ہے اس کا تخمینہ تین کھرب انیس ارب بہتر کڑوڑ پچاس لاکھ روپئے سالانہ لگایا گیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے کرپشن کے سد باب کے لئے اقدامات نہیں کئے۔ حکومت برابراس کے خاتمہ کے لئے کوششیں کر رہی ہے اور اس کے سد باب کے لئے سخت ترین قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ لیکن اس سب کے با وجود حال یہ ہے ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ در اصل حکومتیں قوانین تو بنا لیتی ہیں لیکن ان کے نفاذ کے سلسلے میں وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے ظالموں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور کمزوروں کا استحصال ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کی اسی غلطی کی وجہ سے یہ بیماری کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یہاں تک کے ہمارے عوام بھی ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کہ ہمارا ملک اس دلدل سے کبھی نہیں نکل پائے گا۔ غور کیجئے تو ان کا کہنا شاید درست بھی ہو، کیونکہ حکومتی سطح سے لیکر پرائیویٹ سطح تک اوپر سے نیچے تک پورا کا پورا نظام اس گندگی میں لت پت ہے، سب بے باک اور بے خوف ہو کر کمزوروں اور لاچاروں پر ظلم میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کو شش کر رہے ہیں۔
بدعنوانی کے اسباب
بدعنوانی یا کرپشن کی بہت سی وجوہات ہیں اس موضوع پر مطالعے کے بعد اس کے پیدا ہونے کے جو بنیادی اسباب سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں۔
(۱) اس بات پر یقین نہ ہونا کہ اللہ حاضر و ناظر اور سمیع و بصیر (۲)اس بات پر یقین نہ ہونا کہ مرنے کے بعد ایک دائمی زندگی ہوگی۔ (۳) آخرت میں خدا کے حضور پیشی اور دنیا وی اعمال کے حساب وکتاب اور ان پر جزا و سزسے بے خوفی(۴)مال کے بارے میں غلط تصور کہ یہ انسان کی ذاتی ملکیت ہے اوروہ اس کے معاملہ میں خود مختار ہے (۵)ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے پرملنے والے اجرو ثواب اور بخل سے متعلق وعیدوں سے لاعلمی(۶) زیاد سے زیادہ مال جمع کرنے کی چاہت (۷) حلال و حرام سے عدم واقفیت (۸) حقوق العباد سے لاعلمی (۹)سود (۱۰) شراب و جوا، اور دیگر نشہ آور چیزیں (۱۱)فحاشی(۱۲) لالچ(۱۳)خود غرضی ومفاد پرستی۔ (۱۴)مسابقت الی الشر۔
کرپشن کا علاج
بدعنوانی کے پیدا ہونے کے جو اسباب اوپر بیان کئے گئے ہیں ان کا حل اور علاج اسلام کے سوا دنیا کے کسی مذہب اور تحریک کے پاس نہیں ہے۔ بدعنوانی در اصل حق تلفی کا دوسرا نام ہے، زندگی کے تمام شعبے اس سے متعلق ہیں او رکیونکہ اسلام میں بدعنوانی کا مفہوم بہت وسیع ہے، اسلام نے اسے صرف رشوت تک محدود نہیں کیا بلکہ حقوق العباد کے تمام شعبے اس میں شامل کئے ہیں۔ اس لئے اسلام اس کے سد باب میں ۱۰۰ فیصد کامیاب رہا ہے۔
اس بیماری کی دوا صرف اسلام کے پاس ہے: یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس دنیا سے کرپشن کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس سے نکلنے کا کوئی ایسا راستہ نہیں دکھا یا جائے جس پر چلنے کو ہر شخص تیار ہوجائے، اور ایساکوئی پیغام نہ سنایا جائے جوخود لوگوں کے دلوں کی آواز ہو۔
بلاشبہ اسلام ہی وہ اکلوتا مذہب ہے جو انسانوں کو کسی راہ پر تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ ان کا کا ہاتھ تھام کرانھیں ہر تنگ و تاریک راہ سے گزار لے جاتا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں اسلام ایک مکمل راہنما کی حیثیت سے موجود نہ ہو۔ لیکن یہ دنیا کی محرومی ہے کہ وہ اسلام کے آغوش میں آکر اپنے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں دردرلئے پھرتی ہے، جہاں اس کے مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے جاتے ہیں۔
جہاں تک بدعنوانی کے خاتمہ کا مسئلہ ہے تو اسلام ہی وہ مذہب ہے جواس ناگ کا سر کچل کر ہراس سوراخ کو بند کر تا ہے جہاں سے اس کے سر نکالنے کا اندیشہ ہو۔ وہ اس مہلک بیماری کا نہ صرف مکمل علاج کرتا ہے بلکہ اس کو پیدا کرنے والے جراثیموں کی بھی نسل کشی کردیتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتاہے کہ اسلام کے پاس ایسا کونسا نظام ہے جو اس ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے؟
اسلام دلوں کی آواز ہے:
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی سب سی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسانوں کے دلوں کی آواز اور انکی فطرت ہے۔ وہ ان کے دلوں میں اتر کر ان میں ایسے خدا کا یقین پیدا کرتا ہے جو سارے عالم کا تن تنہا بادشاہ ہے۔ اسلام یہ یقین دلاتا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے سب کچھ خدا نے پیدا کیا ہے۔ کائنات کی ہر شے اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے یہاں جوکچھ ہورہا ہے وہ سب کچھ اسی کے حکم سے ہو رہا ہے، اور کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔
ایک حاضر وناظر مالک کا یقین
اسلام انسان کے دلوں میں اس بات کا یقین پیدا کرتا ہے کہ کائنات کی کوئی چھوٹی بڑی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں وہ انسانوں کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے، اسے سب کے دلوں کاحال معلوم ہے، اس نے اپنے فرشتوں کو انسان کے ہر ہر عمل اور احساس کو ریکارڈکرنے کا کام سونپ رکھا ہے، اور ایک د ن ہم سب کو مرنا ہے اور اس کے حضور پیش ہونا ہے، اس دن وہ ہمارے تمام اعمال کا ریکارڈ ہمار ے سامنے پیش کریگا۔ ہمارا ہر وہ عمل جو ہم نے دن کی روشنی میں اور رات کے اندھیرے میں برسر عام یا تنہائی میں کیا تھا، ہمارے سامنے اس کی ریکارڈنگ چلادی جائے گی اور جنت اور دوزخ کا فیصلہ انھی اچھے برے اعمال کی بدولت کیا جائے گا۔ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں :’’کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُونَ بِالدِّین* وَإِنَّ عَلَیْْکُمْ لَحَافِظِیْن*کِرَاماً کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ* إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ* وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْم*ٍ یَصْلَوْنَہَا یَوْمَ الدِّیْنِ *وَمَا ہُمْ عَنْہَا بِغَاءِبِیْنَ’’* (الانفطار:۹تا۱۶) (ہر گز ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن تم لوگ سزا و جزا کے دن کو جھٹلاتے ہو۔ حالانکہ، تم پر کچھ نگہبان (فرشتے) مقرر ہیں۔ وہ معزز لکھنے والے ہیں (ہر ہر عمل کو نوٹ کرنے والے ہیں )۔ جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔ یقین رکھو کہ(آخرت میں ) نیک لوگ بڑی نعمتوں میں ہونگے۔ اور برے و بدکار لوگ ضرور دوزخ میں ہونگے۔ وہ اس (دوزخ)میں سزا و جزا کے دن داخل ہونگے۔ اور وہ اس سے غائب نہیں ہو سکیں گے)۔
دنیا وی اعمال پر حساب وکتاب کا یقین
اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ اللہ نے دنیا وی زندگی کو صرف اچھے اور برے اعمال کی آزمائش کے لئے بنایا ہے۔ ارشاد فرمایا:
’’َّالذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُور‘‘(الملک:۲)
(اللہ ہی ہے) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکے وہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں کون سب سے اچھے عمل کرنے والا ہے)۔
ارشاد نبوی ہﷺہے:’’ لا تزول قدماعبدیوم القیامۃ حتیٰ یسأل عن اربع:عن شبابہ فیما أبلاہ، وعن عمرہ فیما افناہ، وعن مالہ من أین جمعہ وفیم أنفقہ و عن علمہ ماذا عمل فیہ‘‘(رواہ الترمزي)۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن آدمی اس وقت تک اپنے قدم نہیں ہلا سکے گا جب تک چارچیزوں کے بارے میں جواب نہ دے دے: جوانی کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس کو کہاں خرچ کیا، عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ وہ کہاں گزاری، مال کے بارے میں سوال ہوگا کہ وہ کیسے جمع کیا اور کہاں کہان خرچ کیا، اور علم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس پر کتنا عمل کیا۔
دنیا دا رالامتحان ہے
اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ انسان کی اصل زندگی اخروی زندگی ہے جو ہمیشہ ہمیش کی ہے، جبکہ دنیا وی زندگی فانی ہے۔ دنیا دار العمل اور دارالامتحان ہے اور آخرت اس کی جزاء ہے۔ اس لئے اپنے دلوں میں دنیا کی محبت کو نہ بسایاجائے بلکہ تمام اعمال میں آخرت ہی مطمح نظر ہو۔ قرآن کہتا ہے۔ ’’ٍ قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْلٌ وَالآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّمَنِ اتَّقَی وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِیْلا‘‘ََ(النساء :۷۱) (اے نبی کہہ دیجئے !دنیاوی نعمتیں تو چند روزہ ہیں، لیکن آخرت بہت بہتر ہے اس کے لئے جو تقوے والا ہو، اور(اللہ کے یہاں کسی پر) دھاگے کی برابر بھی ظلم نہیں کیا جا ئے گا)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک دنیا وی نعمتیں ان نعمتوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں جن کواللہ نے اخروی زندگی میں نیک عمل کرنے والوں کے لئے بنا یا ہے۔ چنانچہ جس شخص کے دل میں اخروی زندگی کا یقین خدا کے حاضر و ناضر ہونے پرا یمان اور آخرت میں اپنے ہر عمل کی جوابدہی کا احساس پیدا ہوجائے وہ کبھی بھی کسی کی حق تلفی کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ بلک وہ تو حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنا فرض منصبی جانے گا اور ان کی ادائیگی کو خدا کی خوشنودی کا ذریعہ بنا ئے گا۔
اسلام نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ آخرت میں حساب و کتاب کا تصور دیکر چھوڈ دیاہوبلکہ انسان کے تمام اچھے برے اعمال اور جائز و ناجائز کاموں کو پوری وضاحت سے بیان کیا ہے تاکے دنیاوی زندگی میں انسان جو بھی قدم اٹھائے وہ بہت سوچ سمجھ کر اٹھا ئے۔ چنانچہ بدعنوانی کے جو جو پہلو انسانی زندگی میں ہو سکتے تھے اسلام نے بڑی وضاحت سے انھیں بیان کیا ہے تاکہ انسان ان سے خود بھی بچ سکے اور دوسروں کو بھی اس سے بچا سکے۔
مال کے بارے میں اسلام کا تصور
مال اللہ کی ملکیت ہے:
بدعنوانی کی جڑ مال کی حرص اور لالچ ہے۔ چنانچہ اسلام نے مال کے بارے میں یہ تصور پیش کیا کہ مال کسی انسان کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ وہ انسان کے پاس اللہ کی امانت ہے، انسان اپنے مال میں خود مختار نہیں بلکہ اللہ کے حکم کا پابند ہے۔ چنانچہ انسان کو مال اسی طریقے پر حاصل کرنا ہے جس طریقے پر اسے اللہ نے حاصل کر نے کا حکم دیا ہے اور انھی جگہوں پر خرچ کرنا ہے جن جگہوں پر اللہ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ قر آن میں اللہ کا فرمان ہے :’’کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکروا لللہ ان کنتم ا یاہ تعبدون‘‘(ہم نے جوتم کو پاک روزی عطا کی ہے اس میں سے کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو)۔ ایک جگہ فرمایا ’’و اٰتوھم من مال اللہ الذی آتاکم‘‘ (اللہ نے جو مال تمہیں دیا ہے اس میں سے ضرورت مندوں کو دو)۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے’’المال مال اللہ ‘‘۔ (مال تو سب کا سب اللہ کا ہی ہے)۔
بخل کی ممانعت
مال و دولت کی محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ قرآن نے بھی اسے جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ سورہ فجر آیت ۲۰ میں ارشاد ہے: ’’وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبّاً جَمّاً ‘‘۔ (اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو)۔ سورہ ’’والعٰدیات‘‘ میں فرمایا:’’إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّہِ لَکَنُود*ٌوَإِنَّہُ عَلَی ذَلِکَ لَشَہِیْدٌ*وَإِنَّہُ لِحُبِّ الْخَیْْرِ لَشَدِیْدٌ *۔ (بالاشبہ انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے، اور وہ اس بات پر خود ہی گواہ ہے۔ اور اس مین بھی کوئی شک نہیں کہ وہ مال کی محبت مین بڑی شدت سے مبتلا ہے)۔
انسان کی اس فطرت کو ملحوظ رکھتے ہو ئے اسلام نے مال جمع کرنے کی قطعی ممانعت نہیں کی، بلکہ اس مال میں چند حقوق متعین کر دئے تاکہ انسانوں کے درمیان عدل و انصاف قائم ہو اور بدعنوانی اور کرپشن کو پنپنے کا موقع نہ مل سکے۔ اس لئے اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ معاشرے کے سارے مال و دولت پر صرف چندافراد کا کنٹرول ہو جائے اور باقی لوگ غریبی اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں۔ اسلئے اسلام مال پر قبضہ جماکر رکھنے والوں اور ضرورت مندوں پر خرچ نہ کرنے والوں کو سخت وعیدیں سناتاہے۔ ارشادخداوندی ہے
’’وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمِ ِ*یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَذَا مَا کَنَزْتُمْ لأَنفُسِکُمْ فَذُوقُواْ مَا کُنتُمْ تَکْنِزُون‘‘۔ (التوبۃ :۳۴)۔
(اور جو لوگ سونا چاندی(مال و دولت) جمع کرکے رکھتے ہیں اور اللہ کے راستے میں اسے خرچ نہیں کرتے، تو ایسے لوگوں کو درد ناک عذاب کی بشارت سنا دیجئے۔ جس دن اس دولت کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھراس سے ان لوگوں کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (اور کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم اپنے لئے جمع کرتے تھے۔ اب چکھو اس( خزانہ )کا مزا جو تم جوڑجوڑ کر رکھاکرتے تھے۔
اسلام نے ایک ایسا نظام دیاہے جس کے ذریعہ دولت کی تقسیم صحیح طور پر ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلام دولت مندوں کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہاللہ کے دئے ہوئے مال میں سے ان لوگوں کا بھی حق رکھیں جن کو اللہ نے مال نہیں دیا۔ اسلام اسے زکاۃ کا نام دیتا ہے جو امیروں سے لیکر غریبوں پر خرچ کی جاتی ہے۔
صدقہ و خیرات کا حکم
اسلام اس بات کاشوق بھی پیدا کرتا ہے کہ سال میں صرف ایک مرتبہ کی زکاۃ پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ گاہے گاہے صدقہ و خیرات کیا جاتا رہے۔ قرآن میں ارشاد ہے۔ و فی اموالہم حق للسائل و المحروم۔ (اور ان کے مال میں سوال کرنے والے کا اور محروم کا حق ہے )۔
ایک جگہ فرمایا:َ
یا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(بقرہ :۲۶۷)
(اے ایمان والو جو تم نے پاکیزہ مال کما یا ہے اس میں سے خرچ کرہ، اور جو ہم نے زمین سے نکالا ہے وہ خرچ کرو۔ اورتم گندی اور خراب چیز خرچ کرنے کے بارے میں مت سوچو، حالانکہ تم خود اسے آنکھیں بند کئے بغیر لینا گوارا نہیں کروگے۔ اور یہ جان لو کہ( ہر چیز سے) اللہ بے نیاز ہے ا ورتعریف والا ہے)۔
صدقہ و خیرات کرنے والوں کے دلوں میں یہ خیال آسکتا تھا کہ اس طرح تو ہمارا مال کم ہو جائے گا۔ اسلام اس بات کی تردید کر کے یہ یقین دلاتا ہے کہ صدقہ و خیرات سے مال میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ اس سے مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ارشادخداوندی ہے۔ :’’مَثَل الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَۃٍ مِّءَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَشَاءُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(بقرہ ۲۶۱)۔ (جو لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس نے سات بالیاں اگائیں اور ہر بالی میں سو دانے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔
بھلا جو اپنے مال کو اللہ کی امانت سمجھے اور اس مال میں سے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا حق ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہو وہ کسی کی حق تلفی(بدعنوانی) کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے؟ حرص و لالچ کا علاج انسان فطری طور پر لالچی واقع ہوا ہے۔ اور اسی لالچ کے سبب وہ کرپشن میں مبتلا ہوتا ہے۔ پھر وہ لوگوں کی حق تلفیاں کرتا ہے اور زمین میں فساد مچاتا ہے، چنانچہ اسلام انسان کے لالچ کا رخ دنیاکی فانی نعمتوں کے مقابلہ جنت کی ابدی اور تعریفوں سے بالاتر نعمتوں کی طرف موڑ دیتا ہے، جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنااور نہ کسی کے ذہن میں ان کا وہم و گمان گزرا۔ ارشاد خداوندی ہے:’’وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْْنَیْْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجاً مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْْرٌ وَأَبْقیٰ‘‘(طہٰ:۱۳۱) (اور دنیا وی زندگی کی اس بہار (چکاچوندھ) کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے ان(کافروں ) میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لئے دی ہے، تاکہ ان کو اس کے ذریعہ آزمائیں۔ اور تمہارے رب کا رزق سب سے بہتر اور سب سے دیر پا ہے)۔
قر آن نے جگہ جگہ جنت میں ملنے والی نعمتوں کی تصویر کشی اس انداز سے کی کہ ان کی چاہت انسان کےء دل میں گھر کر جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے :’’مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِیْہَا أَنْہَارٌ مِّن مَّاء غَیْْرِ آسِنٍ وَأَنْہَارٌ مِن لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہُ وَأَنْہَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشَّارِبِیْنَ وَأَنْہَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی وَلَہُمْ فِیْہَا مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّن رَّبِّہِمْ کَمَنْ ہُوَ خَالِدٌ فِیْ النَّارِ وَسُقُوا مَاء حَمِیْماً فَقَطَّعَ أَمْعَاء ہُمْ ‘‘۔ (سورہ محمد:۱۵)
(متقی لوگوں سے جس جنت کا وعدہ کیا گیاہے، اس کا حال یہ ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو خراب ہونے والا نہیں، ایسے دود ھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلے گا، ایسے شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے سراپا لذت ہوگی، اور ایسے شہد کی نہریں ہیں جو نتھرا ہوا ہوگا۔ اور ان جنتیوں کے لئے وہاں ہر قسم کے پھل ہوں گے، اور ان کے پر وردگار کی طرف سے مغفرت۔ کیا یہ لوگ ان جیسے ہو سکتے ہیں جو دوزخ میں ہمیشہ اس حال میں رہیں گے کہ انھیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، چنانچہ وہ ان کی آنتون کو تکڑے کر دے گا)۔
ایک انسان جب اخروی نعمتوں پر یقین کرتا ہے اور ان کو پانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے تو دنیاوی مال و دولت کا لالچ خود بخود اس کے دل سے نکل جاتا ہے، دنیا اور اس کی نعمتیں اس کے سامنے بے حیثیت ہو جاتی ہیں اوروہ کسی بھی طرح کی بد عنوانی اور حق تلفی کرنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
حقوق العباد کا تصور
اللہ کے نزدیک اس کے تمام بندے محترم ہیں اسی لئے ایک انسان کی جان اس کے نذدیک ساری انسانیت کی جانوں کی برابر ہے۔ اللہ اپنے تمام بندوں پر رحم و کرم کا معاملہ کرتے ہیں اور وہ اپنے بندوں سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ بھی اس کے بندوں پرمہر بانی کا معاملہ کریں۔ چنانچہ اللہ نے جہاں اپنے حقوق متعین کئے ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہاں بندوں کے حقوق بھی متعین کئے ہیں تاکے اس کے تمام بندوں کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کیا جائے۔
اسلام میں حقوق العباد کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس کی ادائیگی کواسلام میں فرض قرار دیا گیا ہے اور اس سے کوتاہی کرنے والے کو نہ صرف اللہ کے عذاب سے ڈرایا گیا بلکہ دنیا میں بھی اس پر سخت سزائیں سنا ئی گئی ہیں۔ کیونکہ اللہ کو یہ بات بالکل پسند نہیں کہ اس کے کسی بندے کے ساتھ ادنیٰ بھی زیادتی کی جائے، اور اس کو کمزور جان کر ظلم کا نشانہ بنا یا جائے، اس لئے قر آن میں جگہ جگہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ حقوق العباد میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے بچیں۔ چنانچہ قرآن مال کو نا جائز طریقوں سے کما نے کو حرام قرار دیتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْما۔ (النساء ۲۹) (اے ایمان والو ااپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ تمہاری آپسی رضامندی سے کوئی سمجھوتا ہو گیا ہو۔ اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ بلاشبہ اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے)
حرام کمائی کی ممانعت
غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ بندوں کے حقوق کی پامالی میں حرام کمائی کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے حرام کمائی اور اس کی تمام شکلوں کو نا جائز ٹہرایا ہے۔ اللہ کے یہاں حلال مال کی ہی مقبولیت ہے جبکہ حرام مال کھانا پیٹ کو آگ سے بھرنا۔ ارشاد خدا وندی ہے:’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْر‘‘َ(النساء:۱۰) (اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ذریعے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں کو آگ سے بھرتے ہیں۔ اور بہت جلد ہی وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ )
آج سب سے زیادہ کرپشن رشوت کی شکل میں پھیل رہا ہے۔ رشوت ہی ہے جس کے ذریعے مستحقین کو ان کے حق سے محروم کر کے ان کا حق دوسروں کو دلوا دیا جاتا ہے۔ رشوت کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:’’وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون‘‘(البقرہ:۱۸۸)۔
(اور آپس میں تم ایک دوسرے کے مال کو ناجائز اور غلط طریقوں سے مت کھاؤ اور نہ انھیں حاکموں کے پاس لے جاؤ کہ (رشوت دے کر یا طاقت کے بل بوتے) لوگوں کا مال جانتے بوجھتے ہڑپ کر جاؤ)۔ نبی پاکﷺ کا فرمان ہے:’’ الراشی والمرتشی کلا ہما فی النار‘۔ ‘(رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں ہی جہنم میں جائیں گے)۔ ایسی سخت وعیدوں کے بعد بھی اگر کوئی مال حرام سے اپنے پیٹ کو بھرتا ہے، اور خدا کے بندوں کا استحصال کر تا ہے، تو ایسا شخص معاشرے کو تباہی میں ڈال رہا ہے۔ اور اس طرح کے لوگوں کا علاج سخت ترین قوانین کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔
ناپ تول میں کمی کی ممانعت
بازار تجارت ہو یا گھریلوو باہمی معاملات اسلام اس بات کی شدید مذمت کرتا ہے کہ جھوٹ اور دھوکے کے ذریعہ لوگوں کا حق مارا جائے، اورناپ تول میں کمی کر کے عوام کو ان کی چیزیں گھٹا کر دی جائیں۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’وَإِلَی مَدْیَنَ أَخَاہُمْ شُعَیْْباً قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَہٍ غَیْْرُہُ قَدْ جَاء تْکُم بَیِّنَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ فَأَوْفُواْ الْکَیْْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْیَاء ہُمْ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن‘‘(الاعراف:۸۴)۔
(اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا۔ انھوں نے کہا: اے میری قوم، صرف اللہ کی عبادت کو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے رب کی جانب سے تمہارے پاس کھلی نشانیاں آچکی ہیں۔ چنانچہ تم لوگ ناپ تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں سے گھٹا کر مت دو۔ اور زمین میں اس کی درستگی کے بعد بگاڑ مت پیدا کرو۔ یہ سب تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو)۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:’’وَأَوْفُوا الْکَیْْلَ إِذا کِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذَلِکَ خَیْْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلا‘‘(بنی اسرائیل :۳۵)۔ (اور جب کسی کو کوئی چیز پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو اور تولنے کے لئے صحیح ترازو استعمال کرو۔ یہی طریقہ درست ہے اور اسی کا انجام بہتر ہے)۔
سود کی حرمت و شناعت
معاشرے میں بدعنوانی کو بڑھا وا دینے میں سود کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ آج سود کی وجہ سے دنیا کا معاشی نظام تباہ برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ سود خوروں نے عام لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کا بے جا استحصال کر رکھا ہے۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک اسی سود کی وجہ سے دنیا کی باطل طاقتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اسلام سود کو حرام و ناجائز قرار دیتا ہے اور سود خوری کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تجارت دونوں فریق کے درمیان نفع و نقصان میں شرکت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ صرف یک طرفہ فائدہ حاصل کرنا اور یک طرفہ نقصان اٹھانا بالکل درست نہیں۔ ارشاد خدا وندی ہے:’’الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ الرِّبَا لاَ یَقُومُونَ إِلاَّ کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَیْْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‘(البقرہ :۲۷۵)۔ (جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ( قیامت میں ) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو، یہ اس لئے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کے تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیاہے ور سود کو حرام قرار دیا ہے)۔ دوسری جگہ فرمایا:’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون‘‘(آل عمران:۱۳۰)۔ (اے ایمان والو کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھا ؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو سکو)۔
سود کتنی بڑی لعنت ہے کہ اس کے تعلق سے نبی ﷺ کا ارشاد ہے:’’لعن رسول اللہ ﷺ علی آکل الرباٰ و موکلہ و کاتبہ و شاہدیہ، وقال: ھم سواء‘‘(مسلم۱۵۹۸) ( نبی پاک ﷺ نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، سود کو لکھنے والے پر اور سود پر گواہ بننے والوں پر۔ اور فرمایا کہ (گناہ کے سلسلے میں ) یہ سب برابر ہیں )۔
شراب اور جوے پر پابندی
لوگوں کو بد عنوان بنا نے اور انسانی معاشرے میں بگاڑ اور فساد پیدا کرنے میں شراب اور جوئے کا بہت بڑا کردار ہے۔ یومیہ ہزاروں گھر انھیں کی وجہ سے ٹوٹ جاتے ہیں اور سالانہ لاکھوں لوگ نشہ خوری کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں۔ انسانی زندگیوں کو تباہ کر نے والے اس ناسور کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے:’’إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون‘‘۔ (المائدہ :۹۰) (اے ایمان والو! یقیناََ شراب اور جوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے )فال کا تیر(سب)ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے کوسوں دور رہو، تاکے تم کامیاب ہو سکو)۔
بھلے ہی شراب اور جوئے سے لوگ کتنا ہی نفع کماتے ہوں لیکن ان سے ہونے والے نقصان کے سامنے ان کا نفع بہت معمولی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:’’یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا إِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا ‘‘۔ (اے نبی ﷺ) یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے، ہاں (بظاہر) لوگوں کا کچھ فائدہ بھی ہے لیکن ان کا گناہ (نقصان)ان کے فائدے سے کہی زیا دہ ہے)۔
اسلام صرف شراب پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ہر نشہ آور چیز جو انسان کی عقل کو ماؤف کرتی ہو، اسلام میں حرام ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:’’کل مسکرحرام‘‘۔ (ْہر نشہ آور چیز حرام ہے)۔ ایک جگہ فرمایا :’’ما اسکرکثیرہ فقلیلہ حرام‘‘جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اسکی تھوڑی سی مقدار بھی حرام ہے۔
آج دنیا اس فساد سے تنگ آچکی ہے اور جگہ جگہ نشہ بندی اور جوا بندی کی تحریکیں چلائی جارہی ہیں لیکن سب بے اثر اور بے سود ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ اسلام نشہ پر۱۰۰ فیصد کنٹرول کرتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں مدینہ کی گلیوں میں بہنے والی شراب میں نظر آتی ہے، شراب جن کے خون میں دوڑتی تھی اسلام نے ان کے دلوں میں اس سے نفرت پیدا کردی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے نشہ بندی پر صرف احکامات دیکر نہیں چھوڑا بلکہ اس پرسخت سزا بھی رکھی ہے۔ چنانچہ اسلامی قانون میں شرابی کی سزا ۸۰ کوڑے ہے، جو معاشرے کو اس خباثت سے پاک رکھنے میں نہایت معاون ہوتی ہے۔ آج دنیا بھر میں میں منشیات کا بازار گرم ہے لیکن اس معاملے میں سب سے کم گراف ان ممالک کا ہے جہاں اسلامی قانون نافذ ہے۔ اسلام نے دنیا کو نشہ بندی کاایک ایسا فارمولا دیا ہے جس پر عمل کر کے دنیا نشہ کی بیماری سے پاک ہو سکتی ہے۔
فحاشی کا سد باب
آج معاشرے کا بڑا حصہ فحاشی میں ڈوبا ہوا ہے اور یہی فحاشی کرپشن کو بڑھا نے میں معاون ہے۔ جس کے باعث دنیا کی وہ مملکتیں جہاں فحاشی کو فروغ مل رہاہے تنزلی کا شکار ہیں اور ان کا زوال دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔
فحاشی کی تعریف کرتے ہوئے اما م راغب اصفہانی فرماتے ہیں :’’الفحش ما عظم قبحہ من الأفعال و الأعمال‘‘(مفرادات، راغب، ص:۳۷۴)(ہر بری چیز کو فحش کہتے ہیں، چاہے اس کا تعلق فعل سے ہو یا عمل سے)۔
اسلام ہر طرح کی فحاشی پر مکمل پابندی لگاتا ہے اوراس میں ملوث لوگوں کو سخت ترین وعیدیں سناتا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے:’’قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ‘‘(الأعراف:۳۳)۔ (اے نبی کہدیجئے کہ بلا شبہ میرے رب نے کھلی اور چھپی تمام فواحشات (برائیوں )کو حرام قرار دیا ہے)۔ فحاشی میں سب سے برا فعل زنا ہے، اور اس کھلی بے حیائی اور جنسی چاہت کے طوفان نے تہذیب و تمدن کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ اسلام انسانوں کو اس کی شناعت سے آگاہ کرتا ہے اوراور اس سے کوسوں دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔ قر آن کا ارشاد ہے: ’’ وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاء سَبِیْلا‘‘(الاسراء ؛۳۲) (اور زنا کے قریب بھی مت جانا وہ ایک گھناؤنا کام اور برا راستہ ہے) یہ ایک حقیقت ہے کہ جنسی شہوت انسان کی فطرت میں شامل ہے اسلئے اسلام نے انسانی مزاج کا پورا خیال رکھا ہے اور ان کو حلال اور جائز طریقے سے اس خواہش کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نکاح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اورتجرد کو قطعی پسند نہیں کرتا۔ اس لئے اس نے نکاح کو بے حد آسان کر دیا ہے، یہاں تک کہ بوقت ضرورت ایک سے زائد نکاح کی بھی اجازت دی ہے تاکہ زنا کی طرف جانے والا ہر راستہ بند ہوجائے۔ اسلام نے فحاشی کو روکنے کے لئے صرف احکامات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس اس کے سد باب کے لئے سخت ترین قوانین بھی بنائے ہیں۔ چنانچہ اسلام میں شادی شدہ زانی کی سزا یہ ہے کہ اس کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ اور کنوارے زانی کی سزا یہ ہے کہ اس کے ۱۰۰ کوڑے لگا ئے جائیں۔ اگر آج دنیا ان سزاؤں کا نافذ کر دے تو دنیا سے فحاشی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا کرپشن دونوں کا ہی خاتمہ ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ ممالک جہاں اسلامی قانون نافذ ہے وہاں خواتین کے جنسی استحصال اور آبروریزی کے واقعات کا گراف صفر ہے۔
مسابقت الی الخیر
عوام میں بدعنوانی کو فروغ دینے والی ایک چیز مسابقت الی الشر ہے۔ یعنی نام و نمود اور انا کی غرض سے دنیا وی عیش و عشرت میں ایک دوسرے سے باز ی لے جانے کی کوشش کرنا۔ جیسے رسومات میں بے دریغ اخراجات کے سلسلے میں مقابلہ آرائی، یا پھر دنیا کی نظر میں اپنے وقار کی بلندی کے لئے سامانِ عیش و عشرت میں مقابلہ آرائی۔ غرض کہ مسابقت الی الشر انسان کواس کی حیثیت سے بڑھ کر اقدامات پر مجبور کرتی ہے، جس سے بڑے پیمانے پر اس کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اسی نقصان کی تلافی کے لئے وہ لوگوں کی حق تلفی پر آمادہ ہوتا ہے۔
چنانچہ اسلام لوگوں کو مسابقت الی الشر سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے اور اس کے متبادل میں مسابقت الی الخیر کو پیش کرتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:’’وَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً* إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُورا*‘‘(بنی اسرائیل:۲۶، ۲۷)۔ ( رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دیا کرو، اور فضول خرچی مت کیا کرو۔ بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے)۔
مبذر کہتے ہیں مال کو ایسی جگہ خرچ کرنے والے کو جہاں اس کے خرچ کرنے کا حق نہیں تھا۔ اسی لئے علماء نے مال کو صحیح جگہ خرچ کرنے والوں کو مبذر ین یعنی فضول خرچی کرنے والوں میں شمار نہیں کیا ہے۔ کیونکہ مسابقت الی الشر میں فضول خرچی لازمی ہوتی ہے اسلئے اللہ نے ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی کہا ہے۔
قرآن میں جگہ جگہ مسابقت الی الخیر کی دعوت دی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:’’وَالَّذِیْنَ یُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَنَّہُمْ إِلَی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ * أُوْلَءِکَ یُسَارِعُونَ فِیْ الْخَیْْرَاتِ وَہُمْ لَہَا سَابِقُون *(المؤمنون :۶۰، ۶۱)۔ (اور وہ لوگ (جن کا حال یہ ہے کہ) جو کچھ بھی (راہ خدا) میں دے سکتے ہیں دیتے ہیں، اور( اس کے باوجود)ان کے دل اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ، انھیں اپنے رب کے حضور لوٹ کر جانا ہے۔ یہی لوگ ہیں جو اچھائیوں کے لئے دوڑنے والے ہیں اور آگے بڑھکر انھیں پانے والے ہیں )
نبی ﷺ نے بھی امت کو مسابقت الی الخیر کے لئے برابر ابھا را ہے۔ اسلام کے اسی مزاج کا اثر تھا کہ صحابہ کرام اچھائیوں میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کا واقعہ اس کے بے نظیر مثال ہے، جب نبیﷺ کے اعلان کے بعد حضرت عمر اپنے گھر کا آدھا سامان صدقہ کر دیتے ہیں اور ان پر بازی لے جاتے ہوئے حضرت ابو بکر اپنے گھر کا سارا ساما ن صدقہ کر دیتے ہیں۔ یہ مسابقہ الی الخیر کا تصور ہی ہے جو مسابقت الی الشر کا خاتمہ کرتا ہے۔ اور معاشرے کو بدعنوانی سے پاک کرتا ہے۔
اسلام کے یہی احکامات اور اصول و ضوابط ہیں جن کو اپنانے کے بعد کوئی بھی معاشرہ بدعنوانی سمیت تمام معاشرتی خرابیوں سے پاک و صاف ہو جائے گا، اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں صرفٖ خدائی قانون کی حکمرانی ہوگی، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا اور ہر طرف امن و امان قائم ہو جائے گا۔
گزارش
1۔ کرپشن کے اسباب اور اس کا حل ایک بہت طویل عنوان ہے، لیکن بفضل خدا اس مختصر مضمون میں اس موضوع سے متعلق تمام پہلؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر بھی ا ہل علم کواگر کسی بھی اصلاح و ترمیم کی ضرورت محسوس ہو تو اس سے ضرور مطلع فرمائیں، ہم آ پ کے مشکور ہوں گے۔
2۔ اس مضمون کا مقصد اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے اصل مخاطبین یعنی ہمارے برادران وطن اردو زبان سے نا بلد ہیں۔ ساتھ ہی مسلمانوں کی اکثریت بھی اس سے نا واقف ہے۔ ہم امت دعوت ہیں اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے میں ہم سب برابر ذمہ دار ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو جو کوئی اللہ کا بندہ اپنی اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس مضمون کاہندی ترجمہ عام کر دے، تاکہ تمام انسانوں تک اسلام کا پیغام پہونچ جائے اور وہ یہ جان لیں کہ اسلام ہی کرپشن سمیت تمام معاشرتی برائیوں کا حل ہے۔
محمد عبد اللہ بن شمیم ندوی

No comments:

Post a Comment