پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑہمارا منفقانہ طرز عمل ہے- رسول اللہ ﷺ نے منافق کی تین نشانیاں بتلائیں (i) جھوٹ (ii) وعدہ خلافی (iii) امانت میں خیانت (البخاری)- ہمارے حکمران و ارباب اختیار کی اکثریت ان تینوں خوبیوں سے آراستہ ہے اور ہم (عوام) بھی پیچھے نہیں- منافق کا درجہ جہنم میں سب سے نیچے ہے کفر سے بھی نیچے- جب ہم منا فقت چھوڑ کرمومن بن جاییں گے تو مسائل ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائیں گے- اس سلسلہ پہلا مرحلہ ایک پارٹی ، گروہ بنانا جو کہ منافقت سے پاک ہو تو وہ مزید اصلاح معاشرہ کرے- اس طرح سیاست ، حکومت ، عدلیہ ، بیوروکریسی ، مسلح افواج، میڈیا ، دینی ، مذہبی جماعتیں، تعلیم غرض کہ ہر اہم شعبہ میں اچھے لوگ موجود ہوں گے جو کہ اصلاح معاشرہ کر سکیں- ایسے پرخلوص لوگوں کی تنظیم کے بغیر جتنے بھی نعرے لگایں، ہجوم تواکٹھا ہو جایے گا مگرمزاحمت پر ثابت قدم رہنے کی بجانے بکھرنے میں بھی دیر نہیں لگائے گا- اس اہم مقصد کے حصول کے لیے ہم سب کو اپنے اپنے اثرو رسوخ کے دائرہ میں انفرادی اور اجتماعی دونوں لیول پر کوشش اور جدی جہد کی ضرورت ہے- اس امن وقت تو لگے گا مگر اس ڈیجیٹل دور میں محنت سے کم وقت میں بھی مثبت نتایج کا حصول ممکن ہے- اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ آگے پڑھ کربہتری کی کوشش کررہے ہوں ان کی کمزوریوں پر درگذر کرکہ مدد کریں، مدو جزر جدو جہد کا حصہ ہیں مایوسی گناہ ہے- اپنی کوشش اور اللہ پرتوکل اہم ہے-
https://bit.ly/Pak-IssueNumber-1
https://bit.ly/AntiCorrutiponJihad
اللہ کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۳ ( الصفّ ۶۱: ۲- ۳)
اے اہلِ ایمان! ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو تم کرتے نہیں؟ یہ بات اللہ کی ناراضی بڑھانے کے لحاظ سے بہت سنگین حرکت ہے کہ تم زبان سے جو کہو اسے نہ کرو(یعنی اپنی اپنی کہی ہوئی بات پر عمل نہ کرے
Let's Save Pakistan: https://bit.ly/MunafiqPolitics *پاکستان منافقوں سے بچاؤ
حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے،پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔ یها اللہ رب العزت کی طرف سے قرآنِ کریم میں مومنین صادقین کی تعریف بیان فرمائی ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۱۵ (الحجرات۴۹:۱۵)
’ یہ سچے اس لیے ٹھیرے کہ ان کا یہ عمل ان کی دلی کیفیت کا سچا ترجمان ہوا۔ زبان ا ور دل سے جس ایمان کا اقرار کیا تھا ،عمل سے اس کی تصدیق کردی‘‘
ان کے دلوں میں ایمان کی جو حقیقی کیفیت تھی اس کا اظہار انھوں نے زبان سے کیا، اور اپنے عمل سے برابر اس کی تصدیق کرتے رہے۔ دراصل زبان، دل اور عمل کی کامل ہم آہنگی کا نام ہی سچائی ہے اور اسی ہم آہنگی پر تمام اخلاق و معاملات کی درستی کا مدار ہے‘‘
ان توضیحات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
مومنینِ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اللہ و رسولؐ پر ایمان لا کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت بجا لائیں گے اور پھر انھوں نے و اقعتاً اپنے اعمال سے اس عہد کو پورا کر دکھایا۔
قول و فعل میں عدم مطابقت نفاق کا مظہر یا منافقین کا خاصّہ ہے،اس لیے کہ منافقین زبان سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے عمل سے کچھ اور ظاہر ہو تا ہے، و ہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اللہ علیم و خبیر کے نزدیک ان کا دعویٰ نا قابلِ قبول قرار پاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اقرار محض زبانی ہوتا ہے، ا ن کے اعمال زبانی اقرار کی سچائی کی تردید کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر منافقین کے قول وفعل میں تضاد کی واضح مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر زبانی طور پر یہ گواہی دیتے تھے کہ بے شک آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، اس پر قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ارشادِربّانی ہے:
اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللہِ۰ۘ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُہٗ۰ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ۱ۚ (المنافقون۶۳ :۱)
جب منافقین آپؐ کے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں: آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ آپؐ ضرور اس کے رسولؐ ہیں، مگر اللہ گواہی دے رہا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔
قرآن نے منا فقین کی سب سے بڑی پہچان یہ بتائی ہے:
يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ۰ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۱۶۷ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۷)
اوروہ[منافقین ] اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے،اللہ خوب جانتا ہے اس بات کو جسے وہ چھپا رہے ہیں۔
اس میں کسی شبہ کی گنجایش نہیں کہ نفاق اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے ، دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ نفاق کی جڑ سے جھوٹ کا پودا اُگتا ہے اور اگر اس کی جڑ کو کاٹا نہیں گیا تو یہ پودا سرسبز وشاداب ہوتا رہتا ہے ۔ اور جھوٹ، نفاق کا لازمہ اورمنا فق کی علامت ہے۔ وہ حدیث بہت مشہور ہے جس میں منافق کی پہلی خاص علامت یہ بتائی گئے ہے کہ وہ جھوٹ کا عادی ہوتا ہے:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔( صحیح بخاری، کتاب الایمان،باب علامات المنافق)
دوسری حدیث (مروی از حضرت عبداللہ ابن عمروؓ ) کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چوتھی خصلت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب وہ جھگڑا کرتا ہے تو فحش کلای پر اُتر آتا ہے [وَاِذَا خَاصَمَ فَـجَرَ] (صحیح مسلم،کتاب ا لایمان، باب بیان خصال المنافق)۔
اسی طرح ’دل میں کچھ،زبان پر کچھ‘ کا رویہ اختیار کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے(یا اس خام خیالی میں مبتلا رہتا ہے) کہ اس طرح وہ دوسروں کو بے وقوف بنا کر یا دھوکا دے کر اپنا اُلّو سیدھا کرلے گا یا اپنا مطلب حاصل کرلے گا، لیکن واقعہ یہ کہ یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے یا وہ خود فریبی میں مبتلا رہتا ہے۔ قرآن نے ایسے مکّاروں و دھوکے بازوں کو بہت ہی صاف لفظوں میں متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی اور کو نہیں خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں،گرچہ انھیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ارشادِربّانی ہے:
وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۹ۭ (البقرہ۲:۹) اور دراصل وہ اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں اور وہ ا سے محسوس نہیں کرپاتے۔
یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ نفاق کے مرض میں مبتلا یا قول وفعل میں تضاد کے عادی لوگ اپنی ڈگر پر چلتے ہوئے خوب مگن رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی خفیہ تدبیریں یا’’ دل میں کچھ اور، زبان پر کچھ اور‘‘ کی پالیسی کار گر ہو رہی ہے، حالانکہ اللہ کی جانب سے انھیں سنبھلنے کی مہلت ملتی ہے جسے وہ سمجھ نہیں پاتے،آخر کار ان کے اس مرض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بالآخر انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ یہ آیتِ کریمہ اسی حقیقت کی ترجمان ہے:
فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرہ۲: ۱۰)
ان کے دلوں میں ایک بیماری[ نفاق کی کھوٹ ]ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ،اور ان کے لیے بڑا درد ناک عذاب ہے ان کے جھوٹ کی پاداش میں۔
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے،اور اللہ کے ا س بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا،بلکہ انھیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں‘‘ ( تفہیم القرآن، جلداوّل،ص ۵۳)۔
لوگوں کو اپنے مکر و فریب کا شکار بنا نے والے یا دھوکا دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ علیم و خبیر ہے، سب کا باطن و ظاہر اس کے سامنے کھلا رہتا ہے ۔ پھر یہ نکتہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اللہ رب العالمین نے ایسا انتظام فرما رکھا ہے کہ انسان کی ہر چھوٹی بڑی بات اور عمل ریکارڈ میں آجاتا ہے۔ بد کار و غلط کار لوگ کہاں تک اپنی بری حرکتوں کو چھپائیں گے یا اپنے سینے کے راز وہ کیسے مخفی رکھ سکتے ہیں،جب کہ قرآن کریم نے قادرِ مطلق کا یہ نظم بھی بیان کردیا ہے :
وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْہُ فِي الزُّبُرِ۵۲ وَكُلُّ صَغِيْرٍ وَّكَبِيْرٍ مُّسْـتَطَرٌ۵۳ (القمر۵۴: ۵۲-۵۳)
اور جو کچھ بھی انھوں نے کیا ہے وہ سب دفتروں میں محفوظ ہے، ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی موجود ہے۔
یہی حقیقت سورۂ یونس کی آیت ۶۱ میں بھی بیان کی گئی ہے۔اس کے مخاطب اصلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن پوری امت،بلکہ جملہ انسانیت سے خطاب ہے۔اس کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو:’’ اور جس حالت میں بھی تم رہتے ہو،جس قدر بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہو،اور جو کام بھی تم لوگ کرتے ہو،اس وقت ہم تمھارے پاس ہی موجود رہتے ہیں جب تم لوگ اس میںلگے رہتے ہو۔اور [یہ بھی یقین کرلو کہ] تیرے رب سے کوئی ذر ّ ہ برابر چیز بھی زمین میں یا آسمان میں پوشیدہ نہیں [رہ سکتی] ہے،نہ چھوٹی اور نہ بڑی،مگر وہ صاف کھلی ہوئی کتاب میںدرج ہے‘‘ ۔
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۶۲ۚۖ (یونس ۱۰:۶۲ )
اللہ کے مطیع و محبوب بندوں کو نہ کسی چیز کا خوف ہوگا اور نہ انھیں کسی رنج وغم سے سابقہ ہوگا (یعنی وہ ہر طرح سے مامون و محفوظ ہوںگے)۔
دوسری جانب قرآن کریم میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت یعنی نفاق کی بیماری میں مبتلا رہنے والوں کو بار بار متنبہ کیا گیا ہے کہ اس برائی سے چھٹکارا پانے کی ہر ممکن کوشش کریں، ورنہ وہ بڑے خسارے میں ہوں گے، اور اس کی وجہ سے سب سے بڑا خسارہ اللہ رب العزت کی ناراضی اور اس کے نتیجے میں ابدی زندگی میں ناکامی ودرد ناک عذاب سے دوچار ہو نا ہے۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرہ:۲:۱۰)’’ان کے لیے(آخرت میں) بڑا درد ناک عذاب (تیار رکھا ہے ) ان کے جھوٹ (یا دوغلے پن) کی سزا میں‘‘۔
نیکی یا بھلی بات کی دعوت دینے والے اور خود اس پر عمل نہ کرنے والے دنیا میں جس ذلت و رُسوائی سے دوچار ہوں گے، وہ اپنی جگہ ہے۔
مختصر یہ کہ جس کا قول خود اس کے دل میں جگہ نہ بنا سکے یا جس کی نصیحت آمیز باتیں خود اس کے عمل کی دنیا کو نہ بدل سکیں ،دوسروں پر یہ باتیں کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ یا جس کی دعوت الی الخیر خود اس کے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے، اس کی دعوت پر دوسرے کیسے لبّیک کہیں گے؟ قرآن نے استفہامیہ پیرایہ میں اس نکتے پر غور وفکر کی دعوت خاص طور سے ا ن لوگوںکو د ی ہے، جو دوسروں کو نیک باتیں بتانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور خود ان پر عمل کرنے میں پیچھے رہتے ہیں یااور و ں کو خیر کی دعوت دیتے پھرتے ہیں، لیکن اپنی عملی زندگی میں اسے جاری و ساری کرنے سے غافل رہتے ہیں ۔ ارشادِ ربّانی ہے :
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۴۴ (البقرہ ۲:۴۴)
کیا تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالاں کہ تم لوگ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ ۔
اللّٰھُمَ طَھِّر قَلْبِی مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَائِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکِذبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَۃَالْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ (احمدابن الحسین البیہقی، الدعوات الکبیر، الکویت،۲۰۰۹ء،۱؍۳۵۰ ؛محمد منظور نعمانی، معارف الحدیث، کتب خانہ الفرقان، لکھنؤ، ۱۹۶۹ء، ۵؍۲۷۱) اے اللہ میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریا سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے۔بے شک تو آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور دل میں چھپے ہوئے رازوں سے بھی با خبر ہے۔
ماخوز خلاصہ از پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی ، ترجمان القرآن
https://www.tarjumanulquran.org/articles/may-2023-qaul-o-fel-main-adam-mutabiqat-ki-rawish